یاد رہے کہ 15 مارچ کو کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکاﺅنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کرلی تھی اور ساتھ ہی آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور و دیگر ملزمان کی ضمانتیں واپس لیتے ہوئے زر ضمانت خارج کرنے کا حکم دے دیا تھا. جس کے بعد 16 مارچ کو سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بینکنگ عدالت کی جانب سے کیس کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا جبکہ ضمانت کی درخواست بھی دائر کردی تھی.بعد ازاں 19 مارچ کو سندھ ہائی کورٹ نے جعلی اکاﺅنٹس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی 10 روز کی عبوری ضمانت منظور کرلی تھی. تاہم اس کیس کے اسلام آباد منتقلی کی وجہ سے 22 مارچ کو احتساب عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو میگا منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکاﺅنٹس کیس میں 8 اپریل کو طلب کیا تھا.یہاں یہ بھی واضح رہے کہ 20 مارچ کو آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے پارک لین اسٹیٹ کرپشن کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب کے سامنے پیش ہوکر اپنے بیانات قلم بند کرائے تھے. خیال رہے کہ 2015 کے جعلی اکاﺅنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں.یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاﺅنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35ارب روہے بتائی گئی تھی. اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاﺅنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا.7 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاﺅنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی. اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہت فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا.آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا. علاوہ ازیں 3 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اڈیالہ جیل میں حسین لوائی اور عبدالغنی مجید سے سے ڈیڑھ گھنٹے سے زائد تفتیش کی تھی. بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے.تاہم 172 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کیا تھا اور معاملے پر نظرثانی کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا.