Pak Updates - پاک اپڈیٹس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

پاکستان میں سوشل میڈیا کی نگرانی پہلے سے کہیں زیادہ سخت 

اسلام آباد (اے ایف پی ) دھمکیاں، گرفتاریاں، بند کر دیے گئے اکاؤنٹ اور محدود کر دی گئی پوسٹس، یہ آج کے پاکستان میں سوشل میڈیا کی حالت ہے۔ ان دنوں پاکستان میں سوشل میڈیا کی اتنی زیادہ نگرانی کی جا رہی ہے، جتنی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی، صحافیوں، سرگرم کارکنوں اور حکومتی مخالفین کو مشکلات اور قانونی کارروائیوں کی دھمکیوں کا سامنا ہے، سنسر شپ کو یقینی بنانے کیلئے ملکی سلامتی اور اسلام مخالف مواد کو روکنے کیلئے بنائے گئے قانون کا استعمال ، مؤثر انداز میں نیوز رپورٹنگ کے لیے خبریں جمع کرنے کے عمل کو بھی محدود بنا دیا گیا ہے ۔ اس موضوع پر جمعہ دس مئی کو پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ جنوبی ایشیا کے اس مسلم اکثریتی ملک میں اختلافی رائے کے اظہار کے لیے مواقع یوں تو پہلے بھی کم تھے لیکن اب جس طرح ملکی ادارے سوشل میڈیا نیٹ ورکس کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں، وہ حکام کی طرف سے ایسے پلیٹ فارمز کو سنسر کرنے کے پختہ ارادے کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ اے ایف پی نے لکھا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران بہت سے صحافیوں، سرگرم کارکنوں اور حکومت کے مخالفین کو جس طرح اندرون ملک اور بیرون ملک تعاقب کا نشانہ بنایا گیا، اور جس طرح انہیں ان کی آن لائن سرگرمیوں اور تنقیدی سوشل میڈیا پوسٹس کی وجہ سے قانونی کارروائیوں کی دھمکیاں دی گئی ہیں، یہ سب کچھ حکمران طبقے اور بااختیار حلقوں کی کم ہوتی ہوئی برداشت کا پتہ دیتا ہے۔ صحافیوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم ’صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی‘ یا سی پی جے نے گزشتہ برس ہی یہ کہہ دیا تھا کہ پاکستان میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا سمیت مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ میں سنسرشپ کی تو پہلے بھی کمی نہیں تھی، لیکن اب خاموشی سے اور بڑے مؤثر انداز میں نیوز رپورٹنگ کے لیے خبریں جمع کرنے کے عمل کو بھی محدود بنا دیا ہے۔ اس دوران سوشل میڈیا کے فیس بک اور ٹوئٹر جیسے پلیٹ فارم اختلافی آوازوں کے حامل سماجی حلقوں اور صحافیوں کے لیے کچھ کہنے کی آخری جگہیں بن گئے تھے مگر اب وہاں بھی صورت حال بدل چکی ہے۔ اے ایف پی کے مطابق اس سال فروری میں پاکستان میں حکام نے قانون نافذکرنے والے ایک ایسے نئے ادارے کے قیام کا اعلان کر دیا، جس کا مقصد سوشل میڈیا کے ان صارفین کے اکاؤنٹس کو بند کرنا یا غیر فعال بنانا ہے، جن پر حکام کی طرف سے ’نفرت پھیلانے اور تشدد پر اکسانے‘ کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ پچھلے برس نامعلوم افراد نے گل بخاری نامی ایک خاتون کالم نگار اور گاہے بگاہے حکومت پر تنقید کرنے والی صحافی کو کچھ دیر کے لیے اغوا کر لیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر یہ ’چڑھائی‘ بڑے ’منظم اور مربوط انداز‘ میں کی جا رہی ہے۔ گل بخاری کے بقول، ’’یہ وہ آخری سرحد ہے، جسے اب فتح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘ اسی طرح رضوان الرحمان رضی نامی صحافی کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ انہیں فروری میں لاہور میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر الزام یہ لگایا گیا تھا کہ وہ ریاست کے خلاف ’بدنامی کا سبب بننے والے ناپسندیدہ مواد‘ کی اشاعت کے مرتکب ہوئے تھے۔ اپنی گرفتاری سے چند روز قبل رضوان رضی نے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر تنقید کی تھی اور خاص طور پر ماورائے عدالت ہلاکتوں کے بارے میں ٹوئٹر پر پیغامات پوسٹ کیے تھے۔اس پاکستانی صحافی کو ان کی گرفتاری کے دو راتیں بعد رہا کر دیا گیا تھا۔ اب ٹوئٹر پر ان کی ’ناپسندیدہ‘ پوسٹس ڈیلیٹ کی جا چکی ہیں اور انہوں نے اپنی رہائی کے بعد سے ٹوئٹر پر پہلے کے عین برعکس کوئی پیغام پوسٹ نہیں کیا۔ پاکستان میں ڈیجیٹل سکیورٹی کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’بائٹس فار آل‘ کے ڈائریکٹر شہزاد احمد کے مطابق بااختیار حلقوں کو اس کریک ڈاؤن سے حاصل ہونے والے نتائج بہت وسیع ہیں۔ انہوں نے ان نتائج کے حوالے سے خاص طور پر شہری حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکنوں، سیاسی اپوزیشن اور بلاگرز کے ہراساں کیے جانے کا ذکر کیا۔ ڈیجیٹل سیکورٹی این جی اور بائٹس فار آل کے ڈائریکٹر شہزاد احمد کا کہنا ہے کہ اس کریک ڈائون کا جال بڑا وسیع ہے، انہوں نے اس جانب توجہ مبذول کروائی کہ انسانی حقوق کے کارکنوں، سیاسی مخالفین اور بلاگرز کو بھی ہراساں کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں سائبر سینسرشپ کی ایک ماہر اینی زمان کے مطابق سوشل میڈیا پر سنسر شپ کو ممکن بنانے کیلئے ملکی سلامتی اور اسلام مخالف مواد کی آن لائن اشاعت کو روکنے کیلئے بنائے گئے 2016 کے قانون کا سہارا لیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ چوں کہ یہ قانون مبہم ہے اس لئے اس کے باعث حکام کو آن لائن سنسر شپ کیلئے مزید جگہ مل گئی۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو 14 برس تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ فیس بک اور ٹوئٹر ٹرانسپرنسی کی رپورٹس کے مطابق یہ کریک ڈائون گزشتہ برس سے ہی جاری ہے جبکہ پاکستانی حکومت کی جانب سے آن لائن سرگرمی کو سنسر کرنے کیلئے درخواستوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹرانسپرنسی کی جانب سے جاری کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق 2018 کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران فیس بک کی جانب سے سب سے زیادہ مواد پاکستان میں روکا گیا۔ فیس بک کے مطابق کمپنی نے مذکورہ چھ ماہ کے دوران 2 ہزار 203 مواد کو ہٹایا جو فیس بک پر دستیاب تھا جو اس سے قبل کی ششماہی سے 7 گنا زیادہ ہے۔ کمپنی کے مطابق اس حوالے سے 87 کے علاوہ تمام شکایات پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے کی گئی تھی جسے مبینہ طور پر مقامی قوانین کے تحت توہین پر مبنی، عدلیہ مخالف اور ملکی آزادی کیخلاف مواد قرار دیا گیا تھا۔ پی ٹی اے نے اس حوالے سے بارہا رابطوں کے باوجود تبصرہ نہیں کیا۔ اسی طرح ٹوئٹر پر بھی سنسر شپ کے حوالے سے مذکورہ دورانیہ میں یہی معاملہ رہا۔ ٹوئٹر پر 3 ہزار 4 اکائونٹس سے مواد ہٹانے کی درخواستیں موصول ہوئیں جبکہ 2017 کی دوسری ششماہی میں یہ تعداد 674 تھی۔ ٹوئٹر کے ایک ترجمان نے بتایا کہ سب سے زیادہ درخواستیں حکومت کی جانب سے موصول ہیں، ترجمان کے مطابق ٹوئٹر نے ان میں سے ایک بھی نہ سنی۔

Get real time updates directly on you device, subscribe now.

Comments
Loading...

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More